فرزانہ ہوں اور نبض شناس دو جہاں ہوں

فرزانہ ہوں اور نبض شناس دو جہاں ہوں
دیوانہ ہوں اور بے خبر سود و زیاں ہوں


حالانکہ میں ہر وقت وہیں ہوں وہ جہاں ہیں
وہ سوچتے رہتے ہیں میں کیا جانے کہاں ہوں


میری ہی طرف ہے نگراں وقت کی دیوی
ہر عہد میں ہر دور میں تقدیر جہاں ہوں


محتاج توجہ مری ہر نرگس مخمور
اے دوست جواں ہوں میں جواں ہوں میں جواں ہوں


مجھ ہی سے عبارت ہے یہ تنظیم گلستاں
میں خندۂ گل ہی نہیں کانٹوں کی زباں ہوں


قائم ہے مجھی سے مرے اسلاف کی عظمت
میں اپنے بزرگوں کی صداقت کا نشاں ہوں


نغموں نے مرے دھوم مچا دی ہے چمن میں
جاویدؔ میں اک طنز پئے نوحہ گراں ہوں