فریاد نہیں اشک نہیں آہ نہیں ہے
فریاد نہیں اشک نہیں آہ نہیں ہے
اے عشق ترا کوئی ہوا خواہ نہیں ہے
گو درد تمنا کو بڑھاتا ہے ترا ذکر
دل پھر بھی ترے نام سے آگاہ نہیں ہے
اے حسن یقیں دیر و حرم کی ہے فضا تنگ
اس در سے پلٹنے کی کوئی راہ نہیں ہے
یہ کس نے اڑائی کہ مجھے عشق ہے تم سے
ہاں تم کو یقیں آئے تو افواہ نہیں ہے
آسائش تن روح کا آزار ہے قیصرؔ
دنیا میں غم عشق سے تنخواہ نہیں ہے