ایک میں اور اک قمر جاگے

ایک میں اور اک قمر جاگے
کیا ضروری تھا ہر پہر جاگے


آسمانی بلائیں نازل کر
اے خدا دل میں تیرا ڈر جاگے


نیند آ جائے بیتے قصوں کو
ہر سحر اک نئی خبر جاگے


کون ہے وہ جو خواب بن بن کر
میری آنکھوں میں رات بھر جاگے


اک سفر ہے محبتوں کا جہاں
پاؤں سو جائیں رہ گزر جاگے


جب ذرا ماند ہو تھکن تو حنیفؔ
مجھ میں پھر جذبۂ سفر جاگے