ایک حسرت میں ڈھل کے ڈستی ہے

ایک حسرت میں ڈھل کے ڈستی ہے
ابر سے بیکلی برستی ہے


ایک خاکہ سا میرے دھیان میں ہے
ایک خواہش سی دل میں بستی ہے


رات میں بھی نہ ہو سکا روشن
دل محلے میں تنگ دستی ہے


گھر کے دیوار و در ہی مخلص ہیں
باقی دنیا تو مجھ پہ ہنستی ہے


کیوں یہاں ڈھونڈتے ہو مسکانیں
دہر تو اک اداس بستی ہے


ہر کسی کو بھلا ہو کیوں حاصل
غم کی سوغات کوئی سستی ہے


جب بھی میں محفلوں میں ہوتا ہوں
روح تنہائی کو ترستی ہے