ایک سگریٹ تھی
تیز مہکار
پھر لہریے دار تصویر میں ڈھل گئی
ایک سگریٹ تھی جل گئی
دوسری تیرے ہاتھوں میں آ کے سلگنے لگی
راکھ جھڑنے لگی
راکھ داں اس نومبر کا بھر جائے گا
اور بھی آخر آخر آئے آئے گا
راکھ سے اڑتی چنگاریوں سے بھرا ایک دن
کب کا سورج کی آنکھوں میں رکھا ہوا
رات کے اس کنارے پہ ٹانکا ہوا چاند حیران ہے
دھند اطراف میں تو دھوئیں ہی سے آمیز ہے
آنچ کیوں تیز ہے
زرد پتے دہکنے لگے چار سو
پھر زمستاں کی سانسوں میں
گھلنے لگی ہے کوئی آرزو
تیز مہکار ہے