دشمن سے اتحاد کے چکر میں پڑ گیا

دشمن سے اتحاد کے چکر میں پڑ گیا
ہر دوست اب مفاد کے چکر میں پڑ گیا


تھوڑی جگہ ملی جو کسی کاخ حسن میں
دل ساری جائداد کے چکر میں پڑ گیا


کرتا رہا گریز جو اک عمر وصل سے
اب لمس کے سواد کے چکر میں پڑ گیا


اک حسن شاندار پہ کامل غزل کے بعد
شاعر نئے مواد کے چکر میں پڑ گیا


یکسانیت چھلکنے لگی اس کے شعر سے
جو شخص انفراد کے چکر میں پڑ گیا


پٹی تعصبات کی باندھی جو غیر نے
اپنوں سے ہی جہاد کے چکر میں پڑ گیا


اچھے سخن کا لطف نہیں لے سکا قمرؔ
نقاد جب عناد کے چکر میں پڑ گیا