دشمن سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا ہے
دشمن سے بھی ہاتھ ملایا جا سکتا ہے
درد کا بھی تو لطف اٹھایا جا سکتا ہے
پھر سے ایک محبت بھی کی جا سکتی ہے
تیرے غم سے ہاتھ چھڑایا جا سکتا ہے
سانجھا کوئی بیچ میں پیڑ لگا لیتے ہیں
جس کا دونوں گھر میں سایہ جا سکتا ہے
ہمسائے جو اپنے گھر میں آج نہیں ہیں
دیواروں کو درد سنایا جا سکتا ہے
ہجر کے ہاتھ پہ خودداری کو گروی رکھ کے
پھر سے اس کو فون لگایا جا سکتا ہے
ساری رات عبادت تو ہے مشکل عزمیؔ
ہاں رستے سے سنگ ہٹایا جا سکتا ہے