دو آنکھوں کو چار کیا جا سکتا ہے
دو آنکھوں کو چار کیا جا سکتا ہے
سپنوں کو ساکار کیا جا سکتا ہے
دنیا کا دیدار کیا جا سکتا ہے
آنکھوں کو سنسار کیا جا سکتا
حبس انا میں ان کو ضائع مت کر جاں
ان لمحوں میں پیار کیا جا سکتا ہے
تجھ سے جتنا عشق کیا ہے اتنے میں
دنیا کا اددھار کیا جا سکتا ہے
ہم مرضی سے ڈوبے ہیں ورنہ تجھ کو
آسانی سے پار کیا جا سکتا ہے
خوشیوں کی مانا کچھ قلت ہے لیکن
غم کا تو انبار کیا جا سکتا ہے
پار بھی ہو سکتا ہے نفرت کا دریا
الفت کو پتوار کیا جا سکتا ہے
عشق یہ سنتے ہیں ہوتا ہے بہت مشکل
ہاں لیکن سرکار کیا جا سکتا ہے
مر جانا ہی ایک طریقہ تھوڑی ہے
جینا بھی دشوار کیا جا سکتا ہے
یادیں ہی اغیار رہیں گی سات جنم
خلوت کو تو یار کیا جا سکتا ہے
بچہ اب یہ جان گئے ہیں ضد کرکے
بوڑھوں کو لاچار کیا جا سکتا ہے