چپ ہوئے تو گھر سے نکلے جا کے دفتر رو پڑے
چپ ہوئے تو گھر سے نکلے جا کے دفتر رو پڑے
عشق ایسی جنگ ہے جس میں سکندر رو پڑے
دوستی کی کچھ مثالیں اس طرح بھی دی گئیں
جب سداما کو لگی تو ساتھ گردھر رو پڑے
فائلوں میں دفن کرکے خواب جب میں رو پڑا
دیکھ کر وہ حال میرا پین پیپر رو پڑے
بس دلوں پر کب کسی کا چل سکا ہے عشق میں
پھر سے ڈائل کر کے ہم وہ ایک نمبر رو پڑے
پوچھ بیٹھے لوگ مجھ سے رو رہا ہے کیا ہوا
چپ کرانے تھے جو آئے لوگ مل کر رو پڑے
باز ہم نے یوں لگایا غم ٹھکانے رات میں
سب سے چھپ کر اوڑھ کر کے ایک چادر رو پڑے
دل لگا کر کام کرنے کی ہمیں عادت رہی
اس لیے جب رو رہے تھے دل لگا کر رو پڑے