دلوں پہ یوں بھی عجب اختیار دیکھا ہے
دلوں پہ یوں بھی عجب اختیار دیکھا ہے
جو پر سکوں تھے انہیں بیقرار دیکھا ہے
ہلا سکے نہ قدم جن کے بادہ و ساغر
انہی پہ زلف و نظر کا خمار دیکھا ہے
ہے امتزاج عجب رنگ و حسن کا اس میں
کہ جس نے دیکھا اسے بار بار دیکھا ہے
کھلا ہے راز پس مرگ ذات کا اپنی
فضا میں اڑتا ہوا جب غبار دیکھا ہے
جو آ سکے نہ کبھی قید ذات میں اپنی
انہی پہ تیرا سبھی اختیار دیکھا ہے
جنوں نے کر بھی لیا پار درد کا صحرا
ابھی خرد کو سر رہ گزار دیکھا ہے
بس اضطراب و خلش درد و آہ اور آنسو
ہر ایک دل میں وفا کا مزار دیکھا ہے
تو کیا لبھائے گی دل کو شگفتگیٔ گل
کہ جب نظر نے بدن کی بہار دیکھا ہے
تھا جن کو ناز بہت اپنی خوش لباسی پر
رہ جنوں میں انہیں تار تار دیکھا ہے