دل پائمال رنج ہے لطف و عطا کے ساتھ

دل پائمال رنج ہے لطف و عطا کے ساتھ
سب کچھ ہمیں جہاں میں ملا ہے سزا کے ساتھ


لاتی ہے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے آفت نئی نئی
میری تو زندگی ہے نزول بلا کے ساتھ


کیوں کر ہمارے دل کو اثر کا یقیں نہ ہو
جاری ہے لب پہ نام تمہارا دعا کے ساتھ


خون رگ حسین پہ قربان جائیے
کیا کیا ملا ہے معرکۂ کربلا کے ساتھ


اے ناخدا سفینہ یہ مانا بھنور میں ہے
ممکن نہیں کہ تجھ کو پکاروں خدا کے ساتھ


میرے لیے تو موت نوید حیات ہے
للہ کوئی زہر پلا دے دوا کے ساتھ


مجھ کو ہے کیف عشق سے نسبت وہی بشیرؔ
نسبت ہے جیسے نے کو خود اپنی صدا کے ساتھ