دل جھیل میں پھینکا ہے تری یاد نے پتھر

دل جھیل میں پھینکا ہے تری یاد نے پتھر
سر سے نہ گزر جائے کوئی موج ابھر کر


یہ پھول سے رخ سرو سے قد چاند سے پیکر
ہلچل سی مچا دیتے ہیں جذبات کے اندر


کچھ اور ستم اور ستم اے غم دوراں
کھلتے ہیں بڑی دیر میں انسان کے جوہر


تو پاس بھی اتنا کہ تجھے دیکھ نہ پاؤں
تو دور بھی اتنا کہ مری سوچ سے باہر


میں کون سی منزل کے لئے گرم سفر ہوں
چلتا نہیں کوئی بھی مرے نقش قدم پر


اک تو کہ ترا ایک ہی رشتہ ہے جہاں میں
اک میں کہ مرے سینکڑوں رشتے ہیں زمیں پر


انساں کا سفر سوئے قمر خوب ہے لیکن
فتنے نہ اٹھائے یہ کہیں چاند میں جا کر


اے صبح طرب آ مری آنکھوں میں سما جا
مغموم نہ کر جائیں تجھے شام کے منظر


کب تک وہ کرائے کے مکانوں میں رہیں گے
نصرتؔ جو بنا سکتے نہیں اپنے لئے گھر