دل بھیتر برسات ہوئی ہے
دل بھیتر برسات ہوئی ہے
یوں بھی گزر اوقات ہوئی ہے
بند دریچے سونی گلیاں
لوٹ چلو گھر رات ہوئی ہے
شرط لگا کر جب بھی کھیلے
کھیل میں ہم کو مات ہوئی ہے
بیت گئیں لو ہجر کی گھڑیاں
ختم شب ظلمات ہوئی ہے
اس کوچے آ نکلے جب بھی
ساتھ میں اک بارات ہوئی ہے
جس نے بھی سچ بولا بڑھ کر
خلقت اس کے ساتھ ہوئی ہے
روٹھے روٹھے کیوں رہتے ہو
کچھ تو کہو کیا بات ہوئی ہے
اتنا بڑا الزام ہے ہم پر
اتنی ذرا سی بات ہوئی ہے
حفظ بیاض میرؔ ہے جس کو
اس کو عطا سوغات ہوئی ہے
قفل طلسم حرف کھلا ہے
شرح کتاب ذات ہوئی ہے
وقت نزول شعر ہے خسروؔ
صبح گئی اب رات ہوئی ہے