دیوار کے ہوئے تو کبھی در کے ہو گئے

دیوار کے ہوئے تو کبھی در کے ہو گئے
میرے چراغ باد ستم گر کے ہو گئے


میں اس طرح سے کوچۂ وحشت کی ہو گئی
ملاح جس طرح سے سمندر کے ہو گئے


اس کے دل و نگاہ کا کس سے کریں گلہ
اس کے دل و نگاہ تو پتھر کے ہو گئے


جو مجھ کو چاہتے تھے کبھی سر سے پاؤں تک
دشمن نہ جانے کیوں وہ مرے سر کے ہو گئے


جو تیرے پیرہن کی مہک لے کے آئی تھی
ہم تو اسی ہوائے معطر کے ہو گئے


میں تیری خوشبوؤں کی طلب گار جب ہوئی
تیرے چمن کے پھول بھی پتھر کے ہو گئے


یہ کیسی گردشیں ہیں کہ ارض و سما پہ آج
شمس و قمر چراغ برابر کے ہو گئے


خیمے جلے چراغ بجھے اور اس کے بعد
نیزوں پہ سر بلند بہتر کے ہو گئے


بارش کو بادلوں کو سمندر کو چھوڑ کر
افروزؔ ہم تو ساقیٔ کوثر کے ہو گئے