دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کئے جا
دیوانے ذرا رقص جنوں تیز کئے جا
منطق سے خرد کی ابھی پرہیز کئے جا
میں تیرے معائب کو محاسن ہی کہوں گا
تو ظرف انا کو میرے لبریز کئے جا
خاموش نہ رہ غنچۂ سربستہ کی صورت
لب کھول تو ماحول کو گل ریز کئے جا
سیراب تو کر لوح و قلم خون جگر سے
تو کشت سخن زار کو زرخیز کئے جا
خود کھنچ کے چلی آئے گی وہ لیلائے منزل
بس ذوق طلب کو یوں ہی مہمیز کئے جا