دھرتی سے آکاش میں چھانے والی تو

دھرتی سے آکاش میں چھانے والی تو
دریاؤں کی پیاس بجھانے والی تو


میں خواہش کی برف پگھلنے کا منظر
میرے بدن میں آگ لگانے والی تو


دن بھر سورج آنکھ میں بھرنے والا میں
شب بھر رنگیں خواب سجانے والی تو


میں تقدیر کا مارا اپنے حال پہ خوش
تدبیروں سے کام چلانے والی تو


صحرا صحرا دھوم مچانے والا میں
گلشن گلشن پھول کھلانے والی تو


اپنی رو میں بہنے والا دریا میں
دریا میں طوفان اٹھانے والی تو


روز دیر سے سو کر اٹھنے والا شانؔ
دیر رات تک اسے جگانے والی تو