دیکھ کر یہ پرشکن زلفیں تری (ردیف .. ے)
دیکھ کر یہ پرشکن زلفیں تری
مارتا ہے مار سر دیوار سے
وہ نکالیں گے مرے ارمان کیا
ان کو فرصت ہی نہیں اغیار سے
یوں نہ چھوٹو گی قفس سے بلبلو
تیلیوں کو کاٹ دو منقار سے
کوئی ملتا ہی نہیں اس دور میں
جو کہ محرم ہو ترے اسرار سے
انتہا یہ ہے بتوں کے شوق میں
کم نہیں رگ رگ مری زنار سے
جمع ہو جاتی ہے دیوانوں کی بھیڑ
وہ گزرتے ہیں اگر بازار سے
فرق یہ جوہرؔ مٹانا ہے ہمیں
پھول سے کھیلے ہے کوئی خار سے