تیر وہ تیر نہیں جو نہ جگر تک پہنچے

تیر وہ تیر نہیں جو نہ جگر تک پہنچے
تیغ وہ تیغ نہیں ہے جو نہ سر تک پہنچے


وہ دعا کیا ہے دعا جو نہ اثر تک پہنچے
جلوہ وہ جلوہ ہے کیا جو نہ نظر تک پہنچے


لٹ گئی ہوش کی دنیا ترے دیوانوں کی
کھل کے گیسو جو ترے تیری کمر تک پہنچے


جذب کامل ہو تو ہو جائے نظارہ آساں
چشم دل وا ہو تو جلوہ بھی نظر تک پہنچے


قید میں رکھ کے بھی اے وائے تسلی نہ ہوئی
ہاتھ صیاد کے مجھ زار کے پر تک پہنچے


یہ امڑتا ہوا سیلاب ابھی رک جائے
تیرا دامن جو مرے دیدۂ تر تک پہنچے


پھر نگاہوں میں کوئی اپنی برا ہی نہ رہے
آدمی اپنے اگر عیب و ہنر تک پہنچے


زندگی عشق میں ملتی ہے مٹا کر خود کو
دانہ جب خاک میں مل جائے ثمر تک پہنچے


قرب ساحل کا انہیں ہوگا نہ جوہرؔ حاصل
جو سفینے نہ ابھی موج بھنور تک پہنچے