آٹھ پہر ہے یہ ہی غم
آٹھ پہر ہے یہ ہی غم کام بہت ہے وقت ہے کم فیض اٹھائیں تجھ سے غیر ناز اٹھائیں تیرے ہم سر ہو میرا چوکھٹ ان کی نکلے تو یوں نکلے دم جوبن تیرا ہے مے خانہ آنکھ ہیں تیری جام جم بڑھتا قد جو تیرا دیکھے اٹھتی قیامت جائے تھم
آٹھ پہر ہے یہ ہی غم کام بہت ہے وقت ہے کم فیض اٹھائیں تجھ سے غیر ناز اٹھائیں تیرے ہم سر ہو میرا چوکھٹ ان کی نکلے تو یوں نکلے دم جوبن تیرا ہے مے خانہ آنکھ ہیں تیری جام جم بڑھتا قد جو تیرا دیکھے اٹھتی قیامت جائے تھم
شعلے بھڑک رہے تھے غیروں کے تن بدن میں میں جام پی رہا تھا ہم راہ بت چمن میں فتنے چھپے ہوئے ہیں گیسوئے پرشکن میں طغیانیاں بپا ہیں آب چہ ذقن میں صد زینت وطن ہیں ننگ وطن وطن میں قسمت عروج پر ہے ہر خار کی چمن میں جسم نحیف کیا ہے ملبوس پیرہن میں لاشہ ہے حسرتوں کا لپٹا ہوا کفن ...
دیکھ کر یہ پرشکن زلفیں تری مارتا ہے مار سر دیوار سے وہ نکالیں گے مرے ارمان کیا ان کو فرصت ہی نہیں اغیار سے یوں نہ چھوٹو گی قفس سے بلبلو تیلیوں کو کاٹ دو منقار سے کوئی ملتا ہی نہیں اس دور میں جو کہ محرم ہو ترے اسرار سے انتہا یہ ہے بتوں کے شوق میں کم نہیں رگ رگ مری زنار سے جمع ہو ...
زندگی باقی ہے اب دو چار دن گن رہا ہے یہ ترا بیمار دن شوخیوں سے کیجئے پامال دل ہیں تمہارے ناز کے سرکار دن وہ جو تھے عہد جوانی کے مری کیسے گزرے برق کی رفتار دن آپ نے جب سے نگاہیں پھیر لیں ہو گئے ہیں کاٹنے دشوار دن ماہ ہے موباف نیر خال رخ زلف شب ہے اور ہے رخسار دن تم الٹ دو اپنے رخ ...
گو مجھے زیست نے آرام سے رہنے نہ دیا اشک آنکھوں سے مگر ایک بھی بہنے نہ دیا ہم الٹتے ہی رہے روئے منور سے نقاب شام سے تا بہ سحر چاند کو گہنے نہ دیا تاب نظارۂ معشوق کہاں عاشق کو طور پر ہوش میں موسیٰ کو بھی رہنے نہ دیا کر دیا چپ بت کافر نے اشارہ کر کے داور حشر سے کچھ بھی مجھے کہنے نہ ...