دے گئے زخم مرے چاہنے والے مجھ کو

دے گئے زخم مرے چاہنے والے مجھ کو
آج تنہا ہوں بہت کوئی سنبھالے مجھ کو


ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی بہت
کوئی ایسا ہو کہ آ کر جو بچا لے مجھ کو


وہ جو کہتے تھے کہ جیون کی خوشی ہو تم ہی
کر گئے آج وہی غم کے حوالے مجھ کو


دل صد چاک کو وہ خار سے کرتا ہے رفو
ہائے یہ بخیہ گری مار نہ ڈالے مجھ کو


ایک مدت سے میں خود سے بھی ہوں روٹھی روٹھی
اے مری جان کبھی آ کے منا لے مجھ کو


ہے سفر دشت کا مشکل تو مگر ہمت کر
حوصلہ دینے لگے پاؤں کے چھالے مجھ کو


یاد آتی ہے مجھے ماں کی وہ ممتا اکثر
لاڈ سے جب وہ کھلاتی تھی نوالے مجھ کو