دشت ایسے گلشن میں گل پہ گل کھلانے کی ہر ادا مبارک ہو
دشت ایسے گلشن میں گل پہ گل کھلانے کی ہر ادا مبارک ہو
ننھے منھے غنچوں سے خود کشی کرانے کا مشغلہ مبارک ہو
پر بریدہ بلبل نے جس جگہ بھی تنکوں سے گھونسلے بنائے تھے
وہ چمن جلانے کو اب بھی تیرے ہاتھوں میں صاعقہ مبارک ہو
تو نے جن بیچاروں کے کم سنوں کی لاشوں پر پاۓ تخت رکھے ہیں
ان کے جسم عریاں پر تیرے جبر بے جا کا دبدبہ مبارک ہو
خون بہا چکا اب تک تو جواں پرندوں کا چاٹ لگ چکی تجھ کو
اب سے شیر خواروں کے تازہ خون ارزاں کا ذائقہ مبارک ہو
صوفیوں بزرگوں نے نقش پا جو چھوڑے تھے سب مٹا دئے تو نے
وقت کے درندے اب کشت و خون کا اک اک راستہ مبارک ہو
جبر مجرمانہ سے تو چمن پہ قابض ہے اب بھی تصفیہ کر لے
ورنہ گلستاں تیرا کل جہاں کے نقشے پر سر کٹا مبارک ہو