دریچہ کھلا ہے
سنہرا پرندہ
نیا ایک سورج
پروں میں چھپائے
دریچے میں یوں
چہچہانے لگا ہے
کہ ہر روز آنکھیں
وہی نقش پھر ڈھونڈھتی ہیں
سنہرا پرندہ
ہے شیشے کے اندر
کہ شیشے کے باہر
کوئی بھی نہیں جانتا ہے
وہ عکاس ایسا ہے
منظر گھلائے ملائے
اگر اس کی تصویر کھینچی گئی تو
نہ جانے وہ کیا کچھ دکھائے
سنہرا پرندہ
جو چاروں عناصر کی یکجائی سے
اک انوکھا سا مانوس منظر بنائے
زمانوں کے قصے سنے اور سنائے
کہ جب میں نے سورج کو دیکھا نہیں تھا
وہیں تھا وہیں تھا
وہ زر بفت کرنوں کا پالا
دریچے میں ہے ساعتوں کا اجالا
کبھی شام کی آخری روشنی ہے
کبھی صبح روشن کا ہے وہ سپیدہ
سنہرا پرندہ
نہ آبی نہ خاکی
نہ ہی داستانی
مگر آسمانی بھی تو وہ نہیں ہے
سمندر کے اطراف کے سارے موسم
پروں میں سمیٹے ہوئے ہے
وہ پورب کو پچھم کو
اتر کو دکھن کو
اپنے پروں سے لپیٹے ہوئے ہے
سنہرا پرندہ
جو دیوار پر مرتسم
سارے گیتوں کو
نظموں کو پہچانتا ہے
نہیں جانتا ہے
کہ یہ نظم
کس نے لکھی ہے