درد بن کے کبھی غم بن کے ستاتا ہی رہا
درد بن کے کبھی غم بن کے ستاتا ہی رہا
اپنے ہونے کا وہ احساس دلاتا ہی رہا
وہ خریدار تو مدت ہوئی آتا ہی رہا
میں دکاں ہیروں کی پلکوں پہ سجاتا ہی رہا
ہائے وہ اس کے جدا ہونے کا منظر یا رب
وہ چلا بھی گیا میں ہاتھ ہلاتا ہی رہا
گہری تاریکی تھی سناٹا تھا پر اک جگنو
روشنی کا مجھے احساس دلاتا ہی رہا
ہر نیا دور نئے لے کے چراغ آیا کیا
اک اندھیرا سا مگر زیست پہ چھاتا ہی رہا
میری بیزار طبیعت کو سکوں مل نہ سکا
یوں تو ہر روز تری بزم میں جاتا ہی رہا
نہ سمجھ پایا یہ انسان مذاہب کے حصول
گھر یہاں بھائی کا خود بھائی جلاتا ہی رہا
اب کے بادل کو خدا جانے ہوا کیا ایسا
جب بھی برسا تو ہری فصل جلاتا ہی رہا
سارا دن اس کے تصور سے ہوا کی باتیں
خواب بن کے مری راتوں کو سجاتا ہی رہا
شعر و فن اس کا ہے ممنون دبی آہوں میں
اپنے غم سے مری غزلوں کو سجاتا ہی رہا
وقت کے ساتھ بدل جاتا میں لیکن ہر پل
میرا ماضی مجھے آئینہ دکھاتا ہی رہا
ایک معصوم سا پاکیزہ سا جذبہ حیرتؔ
جب بھی بہکا تو مجھے راہ پہ لاتا ہی رہا