در امید وا نہیں ہوتا

در امید وا نہیں ہوتا
اب وہ جلوہ نما نہیں ہوتا


کتنی پر لطف زیست ہوتی ہے
جب کوئی آسرا نہیں ہوتا


آنکھ سے گر گیا ہو جو آنسو
وہ کسی کام کا نہیں ہوتا


خود گریباں میں جھانک کر دیکھا
کوئی انساں برا نہیں ہوتا


تو سبھی کا ہے اک ہمارے سوا
ہم سے بس یہ گلہ نہیں ہوتا


وہی ہوتا نہیں جو ہم چاہیں
ورنہ ہونے کو کیا نہیں ہوتا


جان کر میں خموش ہوں حیرتؔ
مجھ سے اس کا گلہ نہیں ہوتا