چٹکی کاٹو ذرا ہلاؤ مجھے
چٹکی کاٹو ذرا ہلاؤ مجھے
میں یہیں ہوں یقیں دلاؤ مجھے
روز اک جھیل راہ تکتی ہے
کھینچ لیتا ہے اک الاؤ مجھے
جنتی ہوں تو پھر بڑھو آگے
تتلیوں آؤ گد گداؤ مجھے
میں ہوں دریا سو کرنا پڑتا ہے
کہیں رستہ کہیں کٹاؤ مجھے
اپنی رفتار کھو چکا ہوں میں
کتنا مہنگا پڑا پڑاؤ مجھے
میں کنارہ ہوں اور عارضی ہوں
جانے کب کاٹ دے بہاؤ مجھے
میں ہوں آخر کو جنس خام ازبرؔ
بیچ دو کوڑیوں کے بھاؤ مجھے