چرا رہا ہے خزانے نہ آج کل سے مرے
چرا رہا ہے خزانے نہ آج کل سے مرے
یہ دزد عمر تعاقب میں ہے ازل سے مرے
یہ کج ادا مجھے اچھے دنوں سے جانتی ہے
بڑے مراسم دیرینہ ہیں غزل سے مرے
دکھا دکھا کے نئے منظروں کا خالی پن
درخت ہاتھ ملاتے ہیں دست شل سے مرے
وہ آنکھ سو گئی وہ چاندنی بھی روٹھ گئی
مکالمے نہ مکمل ہوئے کنول سے مرے
چھبیلی لے گئی یاروں کو کیوں پس مہتاب
گلے غضب کے ہیں دوشیزۂ اجل سے مرے