چپ ہوں سب جانتا مگر ہوں میں

چپ ہوں سب جانتا مگر ہوں میں
یہ نہ سمجھو کہ بے خبر ہوں میں


یوں تو کہنے کو اک شجر ہوں میں
لیکن افسوس بے ثمر ہوں میں


کوئی اپنا ہے میری کمزوری
ورنہ سچی بڑا نڈر ہوں میں


آج بے فکر ہو کے سو جاؤ
میرے گھر والو آج گھر ہوں میں


ذہن میں لائنیں ہیں سڑکیں ہیں
اب تو لگتا ہے خود سفر ہوں میں


ہر طرف خوشبوؤں سے بھر دوں گا
موسم گل کا منتظر ہوں میں


مجھ پہ چل کر تو دیکھیے الفتؔ
مخملی گھاس کی ڈگر ہوں میں