چہرہ تیرا
سرد راتوں کا حسیں اک خواب ہے چہرہ ترا
کیا کہوں بس منظر نایاب ہے چہرہ ترا
نکہت گیسو کو تیری نکہت سنبل لکھوں
تیرے نرم و نازک ان ہونٹوں کو برگ گل لکھوں
آرزو پر یہ عرق لگتا ہے شبنم کی طرح
اور سنی اس میں لٹیں لگتی ہے ریشم کی طرح
جیسے کوئی گلشن شاداب ہے چہرہ ترا
کیا کہوں بس منظر نایاب ہے چہرہ ترا
نور سے کچھ اس طرح ہے چشم تیری تر بہ تر
چاندنی کا عکس جوں اترا ہو سطح آب پر
پتلیاں دونوں تری آنکھوں میں دو نیلم لگے
اور تری آنکھوں کا پانی مجھ کو جام جم لگے
وقت صبح یہ عالم سیماب ہے چہرہ ترا
کیا کہوں بس منظر نایاب ہے چہرہ ترا
قول ہر نکلا زباں سے جو تری شہداب ہے
اور لبوں کا تل کتاب عشق کا اک باب ہے
ہے مصور کی ترے انگ انگ میں گل کاریاں
معجزہ لگتی ہے تیرے حسن کی رنگینیاں
گوہر نایاب ہے زرتاب ہے چہرہ ترا
کیا کہوں بس منظر نایاب ہے چہرہ ترا