چشم تر لے کے جو اس گھر سے نکل جاؤں میں
چشم تر لے کے جو اس گھر سے نکل جاؤں میں
سب بدل جائے جو منظر سے نکل جاؤں میں
زندگی مجھ پہ مسلط ہے کسی ڈر کی طرح
کیسے جی پاؤں جو اس ڈر سے نکل جاؤں میں
میں یہاں قید ہوں مورت کی طرح سنگ تراش
تو اگر چاہے تو پتھر سے نکل جاؤں میں
پھر تو آگے کئی ندیاں کئی چشمے ہوں گے
بس شب و روز کے استھر سے نکل جاؤں میں
خیر مجھ کو جو پکارے کبھی باہر کی طرف
اپنے اندر کے ہر اک شر سے نکل جاؤں میں
دل یکتا جو مرا ساتھ گوارا ہی نہیں
روح بن کر ترے پیکر سے نکل جاؤں میں
جسم زنداں ہی سہی سوچ مگر بارہ دری
جس طرف چاہوں کسی در سے نکل جاؤں میں