چمن والا جو انداز چمن کا قدرداں رہتا
چمن والا جو انداز چمن کا قدرداں رہتا
نہ پھولوں پر جفا ہوتی نہ زد میں آشیاں رہتا
بہاریں مسکراتیں مہرباں گر باغباں رہتا
چمن کی ڈالی ڈالی پر ہمارا آشیاں رہتا
اصول مے کشی سب سیکھ لیتا جام و مینا سے
جو واعظ بھی شریک حلقۂ پیر مغاں رہتا
چمک اٹھتا مقدر ساتھ دیتی نارسا قسمت
جو فردوس نظر بن کر کسی کا آستاں رہتا
چلو اچھا ہوا دل نے ہر اک صورت مٹا ڈالی
ہجوم شوق میں کار جہاں بار گراں رہتا
بہل جاتا ہے دل ویرانیٔ دشت و بیاباں سے
نہ ہوتے یہ مناظر تو ترا وحشی کہاں رہتا
مری رنگیں بیانی لطف دیتی بزم ساقی میں
جو رہتے اک طرف تم اک طرف پیر مغاں رہتا
وطن کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں سے کوئی پوچھے
تباہی کیوں یہ آتی ایک اگر ہندوستاں رہتا
محبت میری رسوائی کا باعث بن گئی اسلمؔ
بہت اچھا تھا اس سے میں جو بے نام و نشاں رہتا