چین ملتا نہیں گھر میں بھی قیامت کیا ہے
چین ملتا نہیں گھر میں بھی قیامت کیا ہے
اٹھ کے سو بار میں بیٹھا ہوں یہ وحشت کیا ہے
اس سے بے مہری و فرقت کی شکایت کیا ہے
جس کو یہ بھی نہیں معلوم محبت کیا ہے
پی کے اک جام جو بے ہوش بنا ہے ذی ہوش
مے کی تاثیر ہے ساقی کی کرامت کیا ہے
وجہ آزار ہے خود جن کے لئے طول حیات
ان کو اندیشۂ شام و شب فرقت کیا ہے
دیجئے حکم تو بیمار کی مشکل حل ہو
کام کر لے گی اجل آپ کو زحمت کیا ہے
حال عصیاں کا گنہ گار بیاں کر دیں گے
ان سے پوچھے گی جو آ کر تری رحمت کیا ہے
موت سے کہتے ہیں وہ جا کے کبھی دیکھ تو آ
میرے بیمار شب ہجر کی حالت کیا ہے
آپ کیا جانیں گزرتی ہے جو اس پر شب و روز
آپ کیا جانیں کہ دل کی مرے حالت کیا ہے
گرد مے خانہ لگاتا ہے ہزاروں چکر
صاف کہہ ہم سے کہ واعظ تری نیت کیا ہے
تارے گن گن کے شب ہجر گزر جاتی ہے
نیند دم بھر نہیں آتی یہ مصیبت کیا ہے
شومئی بخت کی مسعودؔ ہو کیا فکر مجھے
شکر ہر حال میں لازم ہے شکایت کیا ہے