بچھڑ کے دونوں کے ذہنوں پہ بوجھ پڑتا ہے
بچھڑ کے دونوں کے ذہنوں پہ بوجھ پڑتا ہے
رہیں جو ساتھ تو آنکھوں پہ بوجھ پڑتا ہے
پھلوں کے ہونے سے شاخیں فقط لچکتی ہیں
پھلوں کے گرنے سے شاخوں پہ بوجھ پڑتا ہے
تمہارے ذکر کی عادت ہوئی ہے ایسی انہیں
کچھ اور بولیں تو ہونٹوں پہ بوجھ پڑتا ہے
بس ایک چہرے کو سپنے میں دیکھنے کے لئے
تمام عمر کی نیندوں پہ بوجھ پڑتا ہے
عظیمؔ دور کے رشتوں کو دور رکھا کر
وگرنہ پاس کے رشتوں پہ بوجھ پڑتا ہے