بھلا تلاش ہے کیسی کہ ختم ہوتی نہیں (ردیف .. ے)
بھلا تلاش ہے کیسی کہ ختم ہوتی نہیں
کہیں تو پاؤں ٹھہرتے کہیں قدم رکتے
خیال آیا ترا اور میں خود کو بھول گیا
سمٹ گئے ہیں اسی دائرے میں سب نکتے
یہ بے حسی کہ کسی طرح ٹوٹتی ہی نہیں
وہ پھر سے خار چبھوتا کہ زخم دل دکھتے
ہوا سے ٹوٹتے پتوں کا رنج کس کو تھا
نہ بار گل ہی تھا جن پہ تنے وہ کیا جھکتے
معیار ہم نے انا کا سدا رکھا زیباؔ
رہی تمنا ہی ان کو کہ ہم کبھی جھکتے