بیٹا جو ہونہار تھا زن کے اثر میں ہے

بیٹا جو ہونہار تھا زن کے اثر میں ہے
کس کی نظر کا نور تھا کس کی نظر میں ہے


نظریں تو تھک کے آ گئیں اپنے مدار پر
اور اک خیال یار کہ اب تک سفر میں ہے


پرواز کا خیال اسے کر دے گا منتشر
برسوں ہوئے جو گرد جمی بال و پر میں ہے


چلتا نہیں ہے مجھ کو پتہ کب میں بک گیا
خوبی کمال کی یہ مرے راہبر میں ہے


صدہا فریب جس کی عبادت میں ضم ہوئے
اس شخص کا شمار تو اہل ہنر میں ہے