بیٹا بیسویں صدی کا
بیٹے کو پہلے کہتے تھے آنکھوں کا نور ہے
لیکن یہ اب ہماری نظر کا قصور ہے
کچھ دل سے احترام نہیں والدین کا
بیزار اپنے دین سے مذہب سے دور ہے
کالج تو درکنار جو ہیں دینی مدرسے
آداب مغربی کا یہاں بھی ظہور ہے
کچھ مقصد حیات نہ خوف خدا اسے
جنت کی آرزو ہے نہ مشتاق حور ہے
بی اے میں پڑھ رہا ہے یہ نالج کا حال ہے
نقشے میں لکھنؤ کو کہے کانپور ہے
بیٹے میں چاہے لاکھ خرابی ہو مختصرؔ
شادی کے وقت باعث انکم ضرور ہے