بھارت میں توہین رسالت ﷺ کیوں کی گئی؟ اصل کہانی کیا ہے؟

کیا بھارت میں ہونے والی حالیہ گستاخی اتفاقیہ تھی یا یہ کسی مہم جوئی کا حصہ ہے؟ اس واقعے کا گیان واپی مسجد کیس سے کیا تعلق ہے؟ یہ واقعہ کس پس منظر میں ہوا۔۔۔اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟ کیا بی جے پی اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟

اسلامو فوبیا نے بھارتی ہندوؤں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس خباثت کا شکار ہیں۔ بھارت میں ہندوتوا کے علمبردار سیاسی راہنما ذہنی طور پر مفلوج ہوچکے ہیں۔ اسلامو فوبیا نے بھارتی ہندوؤں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس خباثت کا شکار ہیں۔ کیا بھارت میں ہونے والی حالیہ گستاخی اتفاقیہ تھی یا یہ کسی مہم جوئی کا حصہ ہے؟ یہ واقعہ کس پس منظر میں ہوا۔۔۔اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے۔۔۔؟ آئیے اس سے پردہ اٹھاتے ہیں:

کیا یہ واقعہ اتفاقی تھا یا کسی مہم جوئی کا حصہ ؟

    مئی کے آخری ہفتے میں بھارت کےمعروف  ٹی وی چینل 'ٹائمز ناؤ' پر گیان واپی مسجد کے مسئلے پر بحث جاری تھی۔ بابری مسجد کے بعد دوسری کئی مساجد کی طرح یہ اب انتہا پسند سفاک ہندوؤں کے نشانے پر ہے۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد اورنگ زیب  کے دور میں مندر سے مسجد میں تبدیل کر دی گئی تھی اور آج بھی ان کے دیوتاؤں کے بتوں کی باقیات مسجد میں موجود ہیں۔  عدالت  کے احکامات کے مطابق مسجد کا آثار قدیمہ  کے محکمے کی طرف سے سروے جاری تھا جس میں سولہ مئی کو دعویٰ کر دیا گیا کہ مسجد میں دیوتا شیوا کاشیو لنگ ملا ہے۔ مسلمانوں نے فوراً کہا کہ وہ تو ایک فوارا  (وضو خانہ کے لیے )ہے جسے شیو لِنگ  قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ  شیولِنگ  (شیوا- لِنگا) وہ پتھر جو دیوتا شیوا سے منسوب ہے، دیوتا شیوا کے  مورتی کے ساتھ رکھا ہوتا ہے۔

نپور شرما کے توہین آمیز ریمارکس:

  ٹی وی چینل ٹائمز ناؤ پرگیان واپی مسجد  پر بحث جاری تھی کہ بھارتی جنتا پارٹی کی ترجمان اور راہنما نپور شرما نے نہایت توہین آمیز لہجے میں اسلامی شعار کے خلاف بکواس کرنا شروع کردی۔  اس نے نبی پاک ﷺ  اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا   کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔  گستاخی رسول ﷺ کی مجرمہ  کی توہین آمیز گفتگو کے دوران میزبان منہ میں انگلیاں ٹھونس کر بیٹھی رہی اور اسے ٹوکا تک نہیں۔ بحث میں موجود مسلمان شرکا احتجاج کے سوا  کچھ نہ کر پائے۔

ٹویٹر پر ٹرینڈنگ اور بھارتی حکومت کاردعمل:

 یہ معاملہ ٹوئیٹر پر آیا اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔نپور شرما کی طرح اس  کے ایک اور ساتھی نوین کمار جندال  نے ٹوئیٹر پر نپور کی حمایت میں گستاخانہ ٹویٹ کیا۔ پہلے پہل تو  ہندو پرست  بھارتی سرکار  چپ چاپ تماشا دیکھتی رہی لیکن  پھر  دنیا  بالخصوص عرب ممالک میں شور مچنے پر بھارتی  سرکار نے اپنے  دونوں  پالتوؤں کو پارٹی سے نکال باہر کیا۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ سب دباؤ کا نتیجہ ہے۔  بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی)کبھی بھی اپنے پالتووں کو قانون کے مطابق سزا نہیں دے گی۔ اس نے تو اب تک سرکاری طور پر اپنے پالتووں کی نام لے کر مذمت بھی نہیں کی۔ بس دباؤ سے بچنے کے لیے گول مول بیان  جاری کیے ہیں۔ 

مسلم ممالک کا روایتی احتجاج، کیا اس سے کچھ فرق پڑے گا؟

 پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے سرکاری سطح پر ہلکا پھلکا احتجاج کیا ہے لیکن اب تک کوئی عملی قدم سامنے نہیں آ سکا۔ شاید نہ ہی آ  سکے گا۔ کیونکہ کہیں مفاد ہیں تو کہیں مجبوریاں۔  ابتہ او آئی سی نے قفل توڑتے ہوئے بیان جاری کیا ہے جسے مشترکہ مسلمانوں کی آواز کہا  جا سکتا ہے۔    لیکن بھارت نے اوی آئی سی کے بیان کو درخوراعتنا بھی نہیں سمجھا اور اس پر ڈھٹائی دکھاتے ہوئے اسے گمراہ کن قرار دیا ہے۔ البتہ قطر نے سخت الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کی اور بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔اس واقعے پر احتجاج کرنے والے  دیگر ممالک میں کویت، سعودی عرب، اومان اور ایران شامل ہیں۔

بی جے پی  کواس واقعے سے کیا حاصل ہوگا؟

  بھارت میں ہندو کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے کہ  یہ حرکت بھی باقاعدہ منصوبے کا حصہ ہو۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں پر دیگر  مظالم کے ساتھ ساتھ ایک ظلم یہ بھی جاری ہے  کہ ان  کی مساجد سمیت دیگر تاریخی مقامات پر ہندو اپنے مندروں کا دعویٰ کر کے  عدالتی قبضے کے چکروں میں ہیں۔ بابری مسجد کا کیس تو آپ کے  سامنے ہی ہے۔

گیان واپی مسجد کیس: اس مقدمے کا پس منظر کیا ہے؟

گیان واپی مسجد، شاہی عید گاہ مسجد متھرا،  کتب مینار اور تاج محل،   سب انتہا پسند ہندوؤں کی زد میں ہیں۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کیس، جس پر بحث کے دوران گستاخی کی گئی ،  کا تفصیلاً ذکر کریں تو بات کچھ یوں ہے کہ 1991 میں بنارس کی سول کورٹ میں ایک درخواست دائر ہوئی۔ درخواست میں ہندو دیوتا رام  وشی وشو  کو فریق بنا کر دعویٰ کیا گیا کہ مسجد دراصل مندر تھی، جسے اورنگ زیب نے گرا دیا تھا۔ حالانکہ بھارت کی مقننہ نے مذہبی مقامات کے تحفظ کا ایکٹ پاس  کر رکھا  ہے،  جس کے تحت کسی بھی مذہبی جگہ کو 1947 والی حیثیت سے نہیں ہلایا جا سکتا۔ اس ایکٹ کے مطابق درخواست کو فوراً خارج ہونا چاہیے تھا لیکن عدالت نے اسے سماعت کے لیے مقرر کر لیا۔ کیس چلتا رہا اور اپریل 2021 کو عدالت نے بھارت کے اثار قدیمہ کے محکمے کو سروے کا حکم دیا کہ  وہ مندر کی موجودگی کا پتہ چلائے۔ ستمبر میں الہ آباد کی ہائی کورٹ نے سروے کو روک دیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی اگست میں بنارس کی عدالت میں ایک دوسری درخواست آ چکی تھی، جس میں مسجد میں  دیوتاؤں کی باقیات کو محفوظ بنانے اور پوجا  پاٹ کی اجازت مانگی گئی تھی۔ اس درخواست پر بنارس کی سول کورٹ نے اپریل 2022 میں پھر سروے کا حکم دے ڈالا۔ اس بار یہ بھی کہا گیا کہ سروے ویڈیو گرافک ہوگا۔  اسی سروے میں سولہ مئی کو دعویٰ کر دیا گیا کہ مسجد کے  وضو خانے کے نزدیک دیوتا کی نشانی ملی ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ یہ تو فوارا ہے لیکن عدالت نے مسجد کو سیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ صرف بیس مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔

کیا گیان واپی مسجد کا فیصلہ بھی بابری مسجد کی طرح کا ہوگا؟

  جب بابری مسجد کو مسمار کرنےکے بعد اس کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنی تھی  تب بھی اسی قسم کی حرکات کی گئیں تھیں۔ اس وقت بھارت میں اسی پر بحث جاری  ہے۔ ممکنہ طور پر گستاخی کروا کر بحث کا رخ موڑا گیا ہوگا۔  یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اشتعال دلوا کر ان پر ریاستی دہشت گردی کو لاگو کیا جائے۔ ایک اور پہلو بھی ہو سکتا ہے۔ پہلے مسلمانوں کے خلاف تو بی جے پی کے رہنما اور کارکن اشتعال انگیز بیان دیا ہی کرتے تھے لیکن اسلام کے خلاف کوئی  وا شگاف الفاظ میں سخت باتیں نہیں کیا کرتا تھا۔ اس زمن میں پہلے بی جے پی کی نچلی سطح پر باتیں شروع ہوئیں، پھر چھوٹے درجے کے رہنما کرنے لگے اور اب بی جے پی کی مرکزی شخصیت، ان کی سپوکسپرسن نے تمام حدیں پار کی ہیں۔ یہ باقاعدہ ریاستی بیانیہ بنانے کی مہم جوئی بھی ہو سکتی ہے۔

کہیں دیر نہ ہوجائے:

  وجہ کچھ بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اس ساز کی طرح  ہو چکے ہیں جن کی مرضی کی تاروں کو اغیار چھڑتے ہیں اور چیخوں کو موسیقی کی طرح سنتے ہیں۔ یہ احتجاج وحتجاج، خالی بیانات کچھ نتیجہ نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو بھارت کو مشترکہ جواب دینا ہوگا۔ کم از کم اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ اس کا سفارتی و معاشی بائیکاٹ کر دیا  جائے۔ ناموس رسالت کا کچھ تو تقاضا ہے۔

متعلقہ عنوانات