بیڑیاں ڈال دے آزاد ہوئی جاتی ہے
بیڑیاں ڈال دے آزاد ہوئی جاتی ہے
زندگی عشق میں برباد ہوئی جاتی ہے
دل کی بستی میں کوئی اور نہ آیا مالک
تیری دنیا ہے جو آباد ہوئی جاتی ہے
عشق کے کھیل میں فرہاد ہوا ہے شیریں
کوئی شیریں ہے جو فرہاد ہوئی جاتی ہے
کھو چکا ہوں تجھے پر آج بھی تیری خاطر
ہاتھ اٹھ جاتے ہیں فریاد ہوئی جاتی ہے
دن بہ دن روگ یہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
دن بہ دن تو میری بنیاد ہوئی جاتی ہے