ابھی قائل ہوئے ہی تھے تمہاری رہنمائی کے

ابھی قائل ہوئے ہی تھے تمہاری رہنمائی کے
تبھی انجام دیکھے کچھ خداؤں کی خدائی کے


یوں مجھ سے دور جانے کا سفر یہ رائیگاں ہوگا
کبھی وہ دن نہ بھولیں گے تیری مجھ سے رہائی کے


دلوں سے جو نکلتی ہے مٹائے سے نہیں مٹتی
نہیں جاتے کبھی یہ رنگ دل کی روشنائی کے


دیے کے ایک اشارے پر لپک کر جان دیتے ہیں
ابھی تیور کہاں دیکھے ہیں تم نے پارسائی کے


کوئی ہیرا کوئی موتی وہ پھولوں سے سجا بستر
بتاؤ دام کیا پائے ہو اپنی منہ دکھائی کے


بنانے میں مٹانے میں ذرا تو وقت لگتا ہے
ابھی دن ہی ہوئے کتنے تمہاری بے وفائی کے


ہمیشہ کچھ نمی باقی بچی رہتی ہے آنکھوں میں
کچھ ایسا حال ہے ان کا کہ جنگل ہوں ترائی کے


ملو گے خاک میں تم بھی تو مجھ سے مل ہی جاؤ گے
فقط کچھ سال باقی ہیں میری تم سے جدائی کے