بے چینی

خیال و خواب و عقائد کی سحر کاری تک
گھٹے گھٹے سے شب و روز تھے بجھی سی فضا
نہ جاننے سے چلی بات جاننے کی طرف
سکوت موت ہے لیکن سکوت ختم ہوا


جنوں سرشت سے جذبے عمل کی راہوں میں
لباس اوڑھے ہوئے عزم کا نکلتے ہیں
خرد کے دیس میں تنظیم زندگی لے کر
بہت ہی کم ہیں جو ایسے سنور کے چلتے ہیں


حیات ایک سفر ہے بہت عظیم سفر
گریز و جذب میں ڈوبا ہوا ہے ہر لمحہ
بہت عزیز ہے جو فکر کام آ جائے
کہ اس سے بڑھ کے کہاں وقت کا کوئی ہدیہ


حیات سود و زیاں سے نوشت رہتی ہے
حیات سود و زیاں کے جہاں کا محور ہے
کبھی ہے دل کا ضرر یاں کبھی ہے جاں کو سکوں
کبھی دوا ہے کبھی زخم دل پہ نشتر ہے


حیات راہ اذیت ہے اپنی منزل میں
مگر یہ راہ اذیت تمام ہونے تک
نہ جانے کتنی امنگوں کا خون ہو جائے
کوئی تو پیاس بجھے جشن جام ہونے تک