بے یقینی کے ڈر سے ٹوٹ گئے

بے یقینی کے ڈر سے ٹوٹ گئے
ہم جو دست ہنر سے ٹوٹ گئے


تم نہیں جانتے کہ کتنے دل
حادثے کے اثر سے ٹوٹ گئے


حوصلے دھوپ نے کئے پسپا
جسم لمبے سفر سے ٹوٹ گئے


پھر ہمیں کرچیاں دکھانے لگا
خواب جب خواب گر سے ٹوٹ گئے


ایک طائر کی واپسی نہ ہوئی
سبز موسم شجر سے ٹوٹ گئے


کبھی ہم چاک تک نہیں پہنچے
اور کبھی کوزہ گر سے ٹوٹ گئے


کیا طلسمی نگاہ تھی کسی کی
لوگ پہلی نظر سے ٹوٹ گئے


سلسلے سچی چاہتوں کے سفیرؔ
ایک جھوٹی خبر سے ٹوٹ گئے