بے سوز نہاں محو فغاں ہو نہیں سکتا

بے سوز نہاں محو فغاں ہو نہیں سکتا
جب تک نہ لگے آگ دھواں ہو نہیں سکتا


وعدے کو نبھائیں گے یہ وعدہ ہے ہمارا
قول اپنا کبھی تیری زباں ہو نہیں سکتا


ہیں سینکڑوں دل تاج محل آج بھی لیکن
نظارہ تجھے شاہ جہاں ہو نہیں سکتا


آنکھیں ہی نہیں قابل دیدار وگرنہ
اس یار کا دیدار کہاں ہو نہیں سکتا


جز تیرے کوئی راحت دل راحت جاں اور
اے راحت دل راحت جاں ہو نہیں سکتا


پرنمؔ ابھی ارماں ہیں بہت خانۂ دل میں
خالی یہ مکینوں سے مکاں ہو نہیں سکتا