غیروں کے جب بھی لطف و کرم یاد آ گئے
غیروں کے جب بھی لطف و کرم یاد آ گئے
اپنوں نے جو کئے تھے ستم یاد آ گئے
عہد وفا کسی نے کیا جب کسی کے ساتھ
ہم کو تمہارے قول و قسم یاد آ گئے
رہ رہ کے آ رہی ہیں یہ کیوں آج ہچکیاں
کس کو پرائے دیس میں ہم یاد آ گئے
پھر دل اداس اداس ہے ماضی کی یاد سے
جو غم بھلا چکے تھے وہ غم یاد آ گئے
بادل جو برسے ٹوٹ کے اے پرنمؔ حزیں
ان کو ہمارے دیدۂ نم یاد آ گئے