بزم خوباں سے اٹھے دار و رسن تک پہنچے
بزم خوباں سے اٹھے دار و رسن تک پہنچے
آپ ہی آپ مرے پاؤں گگن تک پہنچے
ایک میں ہی تھا جو صیاد کی جھولی میں گرا
اڑ گئے سارے پرندے جو چمن تک پہنچے
صرف دل ہی کو جلانا تو کوئی بات نہیں
عشق اک آگ اگر ہے تو بدن تک پہنچے
بندشوں ہی کی نمائش ہے حیات آدم
ایک دھاگے سے بندھے اور کفن تک پہنچے
عمر کمتر ہی سے کوشش تھی مسلسل جاری
شعر اپنا بھی کوئی طرز سخن تک پہنچے
آخری ایک یہ خواہش ہے مرے سینے میں
خاک جب میری اڑے اپنے وطن تک پہنچے
شرم کا پھول میں آنکھوں سے تیری چن لوں گا
اس سے پہلے کہ جھڑے اور دہن تک پہنچے
آسمانوں کو دبا لے گا وہ پیروں کے تلے
شوق انسان کا گر اس کی لگن تک پہنچے
کیا ضرورت کہ کریں چل کے طواف دنیا
فکر اپنی یہ اگر گنگ و جمن تک پہنچے
سوچ لینا تھا تجھے اتنا کہ کیا ہوگا ندیمؔ
آج کا شعر اگر تیرے سجن تک پہنچے