بصارت

تمہارے لمس کی خوشبو نے صندل کر دیا ہے
کہ میں پاگل تھی تم نے اور پاگل کر دیا ہے
تمازت ہجر کی پھر سے بدن جھلسا رہی تھی
تمہاری یاد کو پھر ہم نے بادل کر دیا ہے
ہمارے واسطے آساں نہیں تھا پھر بھی ہم نے
تمہیں لپٹا کے تم کو اپنا آنچل کر دیا ہے
مقدر کی سیاہی آج کچھ تو کام آئی
سجا کے آنکھ میں اس کو بھی کاجل کر دیا ہے
میں صحرا کی طرح بنجر تھی لیکن اے مری جاں
تمہارے پیار کی بارش نے جل تھل کر دیا ہے
یہاں اک ہنستا بستا شہرا ہوتا تھا تبسمؔ
جسے انسان کی وحشت نے جنگل کر دیا ہے