بس اک دھوکا رہ جاتا ہے
بس اک دھوکا رہ جاتا ہے
بندہ تنہا رہ جاتا ہے
دیکھے دیکھے منظر میں بھی
کچھ ان دیکھا رہ جاتا ہے
نیند مکمل کرتے کرتے
خواب ادھورا رہ جاتا ہے
شام ڈھلے اس پیڑ پہ تنہا
ایک پرندہ رہ جاتا ہے
پیڑ اگر کٹ بھی جائے تو
پیڑ کا سایا رہ جاتا ہے
اک لمحے کی تہ میں رکھا
ایک زمانہ رہ جاتا ہے
تم تو کیا کیا گنوا دیتے ہو
ہم سے کیا کیا رہ جاتا ہے
ہجرت کرنے والوں دیکھو
پیچھے ملبہ رہ جاتا ہے
لوگ تو پار اتر جاتے ہیں
دریا دیکھتا رہ جاتا ہے
بادل دیکھ کے چل دیتے ہیں
صحرا پیاسا رہ جاتا ہے
آخری بس کا ایک مسافر
شب بھر بیٹھا رہ جاتا ہے
کب پڑتا ہے اس کا پاؤں
رستہ دیکھتا رہ جاتا ہے
بات کچھ اور نکل آتی ہے
سب کچھ سوچا رہ جاتا ہے
جاناںؔ اک تصویر نہ ہو تو
کمرہ سونا رہ جاتا ہے