بحر ہستی کوئی سراب نہیں
بحر ہستی کوئی سراب نہیں
زندگی زندگی ہے خواب نہیں
آہ انسان جس کی آنکھوں پر
اپنا انجام بے نقاب نہیں
ایک خورشید رخ کی زلفوں کا
رات کے پاس کچھ جواب نہیں
زندگی درد سے ہوئی محروم
میکدہ ہے مگر شراب نہیں
مطرب وقت تیرے ہاتھوں میں
کیوں ہے تلوار اور رباب نہیں
آدمی آدمی کا رازق ہے
نظم عالم مگر خراب نہیں
ہائے الطافؔ وہ حزیں راتیں
جن کی قسمت میں ماہتاب نہیں