بگولے قیس سے کہتے تو ہوں گے لوٹ جا پیارے

بگولے قیس سے کہتے تو ہوں گے لوٹ جا پیارے
نہیں لیکن کسی کی مانتے یہ عشق کے مارے


سبب میرے مرے رستے میں حائل ہر رکاوٹ تھی
مرے ہٹتے ہی منزل سے یہ رستے جا ملے سارے


پلٹ کر یوں نہیں دیکھا مبادا صرف ملبہ ہو
مری یادوں میں زندہ ہیں وہ گھر وہ در وہ چوبارے


کسی کا راج خوابوں پر کسی کا نیند پر پہرا
کئے کچھ اس طرح ہمدم تری یادوں نے بٹوارے


بھلا لگتا ہے مجھ کو مجھ سا بنجر آسماں دن بھر
مگر پھر اس پہ کھل جاتے ہیں پھولوں سے حسیں تارے


کسی گزرے ہوئے کل کی طرح محسوس ہوتا ہے
نیا کیا ہے بتا اس آج میں آنکھیں کہ نظارے