بدلی ہوئی نظروں سے اب بھی انداز پرانے مانگے ہے
بدلی ہوئی نظروں سے اب بھی انداز پرانے مانگے ہے
دل میرا کتنا مورکھ ہے وہ بیتے زمانے مانگے ہے
مدت ہوئی دل تاراج ہوئے مدت ہوئی رشتوں کو ٹوٹے
دنیا ہے کہ ظالم آج بھی وہ رنگین فسانے مانگے ہے
دل ہے کہ وہ ہے مرجھایا سا ہر آس کا چہرہ ہے اترا
ہر دوست مرا پھر بھی مجھ سے خوشیوں کے خزانے مانگے ہے
حالات نے آنسو بخشے ہیں تقدیر میں رونا لکھا ہے
اور وقت نہ جانے کیوں مجھ سے ہونٹوں پہ ترانے مانگے ہے
عقل اور خرد دونوں مجھ کو دیتی ہیں دعائیں جینے کی
احساس مرا مجھ سے لیکن مرنے کے بہانے مانگے ہے
بستی کیسی محفل کیسی کیسے کوچے کیسے بازار
دنیا سے جہاں چھپ کر رو لے دل ایسے ٹھکانے مانگے ہے
ہر چاہ کا بدلہ چاہت ہو ہر پیار کا پیارا ہو انجام
کچھ سوچ ذرا تو دنیا سے کیا چیز دوانے مانگے ہے