بدن کے نقرئی فانوس سے بہتی

بوڑھی روشنی کے پیلے ناخن
وہ نیلے خون کے ساتھ نگل گئی
رات بھر غم کی کالی چاندنی
اس کے نتھنوں میں جمی
کوکین کی سفیدی چاٹتی رہی
اور چمڑے کے دانتوں سے وہ
وحشت کا بدن کاٹتی رہی
برف کی رانوں سے اٹھتی کچی رطوبت
زخمی تنہائی کے بد صورت خدا سے
مرمریں اذیت مانگتی تھی
پیتل کے ایش ٹرے میں پڑے
ہونٹوں کی حدت سے ابلے
مردہ سانسوں میں لپٹے سگریٹ
جن سے بہتی ہوئی ویلویٹی بدبو
راکھ کے سرمئی لاشوں پر بین کرتی
جس کی آنکھوں سے نکلتی کانچ کی تھکن
رم کی بوتلوں میں انگلیاں چبھوتی
ٹوٹے ہوئے اندھیرے کی چادر پر سو گئیں
صدیوں کی مری ہوئی سلوٹیں
اور ان سے پھوٹتی وحشت کی شوخ کرنیں
چیختی کرسی کی پشت سے چپکے
کاسنی رگوں میں الجھے
ہیمیرس کے پورٹریٹ کو لمس آلود کرتی رہیں