بات ایسی ہے نہیں وہ بات ہی کرتا نہیں
بات ایسی ہے نہیں وہ بات ہی کرتا نہیں
جب ہمیں ہوتی ضرورت بس تبھی کرتا نہیں
باپ بچوں کے لیے جادوگری کرتا نہیں
بس مسلسل کام کرنے میں کمی کرتا نہیں
کس قدر اس کو ستایا ہے خدا نے عشق میں
جو نہیں کافر ہے پھر بھی بندگی کرتا نہیں
دشمنوں سے بھی بہت بد تر ہے میرا دوست وہ
غلطیوں پر جو میری مجھ کو سہی کرتا نہیں
سوچتا ہوں ہجر کیسے کاٹتا ہوگا تنوجؔ
شعر جو کہتا نہیں اور مے کشی کرتا نہیں